تپش کا ہر Ø+والہ نار زادہ چھین لیتا ہے
ٹھٹھرتی رات میں ہم سے لبادہ چھین لیتا ہے

طلب سے بڑھ کے دیتا ہے کوئی بنیا ہمیں قرضہ
ہمارے سیر ہونے پر افادہ چھین لیتا ہے

جسے بھی مدتوں Ù…Ø+روم رکھا جائے روٹی سے
وہ موقعہ ہاتھ آنے پر زیادہ چھین لیتا ہے

کوئی لکھتے ہوئے تھکتا نہیں اس عمر کے پرچے
کسی سے ممتØ+Ù† اوراقِ سادہ چھین لیتا ہے

نفاظِ Ø+بس میں اختر بہاریں کب پنپتی ہیں
یہ قاتل تو ہوا کا استفادہ چھین لیتا ہے